Saturday, 5 October 2013

دلیلِ محبت؟

دلیلِ محبت؟
سنا تھا ہم نے لوگوں سے
محبت چیز ایسی ہے
چھپائے چھپ نہیں سکتی!
یہ آنکھوں میں چمکتی ہے
یہ چہروں پر دمکتی ہے
یہ لہجوں میں جھلکتی ہے
دلوں تک کو گھلاتی ہے
لہو ایندھن بناتی ہے

اگر سچ ہے .....تو پھر آخر ہمیں

اُس ذاتِ حق سے یہ بھلا کیسی محبت ہے؟
نہ آنکھوں سے چھلکتی ہے
نہ چہروں پر ٹپکتی ہے
نہ لہجوں میں سلگتی ہے
دلوں کو آزماتی ہے نہ راتوں کو رُلاتی ہے
کلیجے منہ کو لاتی ہے نہ فاقوں ہی ستاتی ہے
نہ خاک آلود کرتی اور نہ کانٹوں پر چلاتی ہے
نہ یہ مجنوں بناتی ہے
عجب! ..... ایسی محبت ہے

(فقط دعویٰ سجھاتی ہے)

نہ کعبے کی گلی میں تن پہ انگارے بجھاتی ہے
نہ غارِ ثور میں چپکے سکینت بن کے چھاتی ہے
حرا تک لے بھی جائے، قُدس سے نظریں چراتی ہے!
ہم اپنے دعویٰٔ حقِ محبت پر ہوئے نادم
تو پلکوں کے کناروں سے جھڑی سی لگ گئی اور پھر
کہیں سے بجلیاں کوندیں
صدا آئی .........
ذرا اس آنکھ کی بندش کے دم بھر منتظر رہنا
وہاں خود جان جاؤ گے
محبت کی حقیقت کو

No comments:

Post a Comment